آذربائیجان اور آرمینیا جاری تنازع ’علاقائی جنگ‘ میں بدل سکتا ہے‘ رانا بشارت علی خاں انسانی حقوق کے عالمی علم بردار

انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین کو لکھے گئے خط میں کہا کہ دونوں ممالک میں بڑھتی کشیدگی خطے اور دنیا کے لیے غیر محفوظ ثابت ہو سکتی ہے

رانا بشارت علی نے کہا ہے کہ وہ ناگورنو قرہباخ کے متنازع علاقے میں جھڑپوں کے بعد خطے میں ’استحکام کی بحالی‘ کی امید رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ ناگورنو قرہباخ کو بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔
حالیہ برسوں میں ناگورنو قرہباخ پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی یہ سخت ترین لڑائی ہے جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پُرتشدد کارروائیوں کے الزامات لگائے ہیں۔

انہوں نے اپنے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہمیں اس حوالے سے دھیان دینا چاہیے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ علاقائی جنگ نہ بن جائے

انھوں نے کہا کہ ’امن ہمارے ہر عمل کی بنیاد ہے اور ہم خطے میں پُرامن طریقے سے استحکام کی بحالی کی امید رکھتے ہیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ کو ’سانحہ‘ قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں بہت زیادہ تشویش ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تنازع مستقبل قریب میں ختم ہو جائے گا۔‘
’لوگ مر رہے ہیں اور دونوں اطراف شدید نقصان ہوا ہے۔‘

دونوں ممالک کے سربراہوں اور وزراء خارجہ کو اقوام متحدہ کے زیر سایہ گفتگو کے ٹیبل پر آنے کی ضرورت ہے

آرمینا کے وزر خارجہ جینیوا میں آذربائیجان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی طرف سے انکار پر رانا بشارت علی خان نے کہا کہ اس کے اثرات دونوں ممالک کے لوگوں پر عذاب کی طرح نازل ہوں گے

رانا بشارت علی خان ہے کہاں کہ اب دنیا کسی اور جنگ کی کی متحمل نہیں ہوسکتی پہلے ہی جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک میں لاکھوں لوگ بےگھر ہو چکے ہیں اور کئی شہر سر ان کھنڈرات کا کے نظارے پیش کر ہے ہیں ناگورنو قرہباخ کی سرحد پر موجود شہر ٹارٹر شہر بھوتوں کا شہر بن چکا ہے۔ عام طور پر یہاں ایک لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں لیکن اب زیادہ تر یہاں سے جا چکے ہیں۔ اس شہر کی مرکزی گلی خالی ہے اور ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بھری ہوئی ہے۔

Leave a Reply